رحیمی شفاخانہ بنگلور ودہلی

رحیمی شفاخانہ بنگلور ودہلی بھی اسی طب قدیم کی وہ جدید کڑی ہے جس نے بے شمار مراحل سے گذر کر اپنے آپ کو جلا بخشی ہے، رحیمی شفاخانہ ماہر نباض طبیب زماں حضرت مولانا ڈاکٹر حکیم محمد ادریس حبان رحیمی ایم ڈی نے اپنے خسر محترم پیر کامل رہبر صادق حضرت منشی محمد شفیع صاحب نور اللہ مرقدہٗ (صاحبزادہ عالی جناب چھجو خان صاحب زمیندار خلد آشیاں) اور اپنے والد مکرم طبیب حاذق حضرت الحاج حکیم محمد عمران صاحب نور اللہ مرقدہٗ کی دعاؤں اور ان کی خواہش پر 1980 عیسوی میں قائم فرمایا۔ رحیمی شفاخانہ آہستہ آہستہ ترقی کی جانب گامزن رہا، بالآخر 2001 عیسوی میں شہر بنگلور کے گنگونڈناہلی علاقہ کی ایک نئی عمارت میں رحیمی شفاخانہ منتقل کردیا گیا، جس کا افتتاح عارف باللہ حاذق الامت حضرت الشاہ حکیم زکی الدین احمد صاحب رحمۃ اللہ علیہ (بانی ومالک نظامیہ دواخانہ قاضی اسٹریٹ پرنامبٹ، اور خلیفہ ومجاز حضرت مسیح اللہ خان صاحب جلال آبادی) نے اپنے دست مبارک سے فرمایا، اورخصوصی دعائے خیر فرمائی۔ حضرت حاذق الامت کے افتتاح کے ایک ماہ بعد گورنمنٹ یونانی میڈیکل کالج بنگلور کی جانب سے یونانی کیمپ ڈالا گیا، جس کا افتتاح ماہر نباض طبیب زماں حضرت مولانا ڈاکٹر حکیم محمد ادریس حبان رحیمی ایم ڈی کے ہاتھوں عمل میں آیا، اس موقع پر گورنمنٹ یونانی میڈیکل کالج بنگلور کے پرنسپل عالی جناب ڈاکٹر مجیب احمد صاحب، نائب پرنسپل حسیب النساء صاحبہ، شاعر اسلام ڈاکٹر محمد اظہار افسر رحیمی اسعدی، ڈاکٹر محمد فاروق اعظم حبان قاسمی، ڈاکٹر عبد الرحمن محسن قاسمی مالک عالمی دواخانہ دہلی، جناب الحاج شبیر احمد صاحب پٹیل بیکری بنگلور، ڈاکٹر محمد سفیان مالک ریگل میڈیکل سینٹر دہلی، گورنمنٹ یونانی میڈیکل کالج بنگلور کے اٹھائیس ڈاکٹرس وپروفیسر صاحبان اور دیگر بہت سے معززین شہر نے شرکت کی، اس کیمپ میں جملہ دو ہزار افراد کی تشخیص کی گئی اور انہیں مفت ادویات تقسیم کی گئیں۔ رحیمی شفاخانہ اس وقت سے تاحال اسی عمارت میں قائم ہے۔بحمد اللہ تعالیٰ رحیمی شفاخانہ اپنے مریضوں کے اکرام وہمدردی، ان کی حوصلہ افزائی، خالص قدرتی ادویات، ان کی کوالیٹی اور پیکنگ، نیز مناسب قیمت اور بروقت وبااصول طبی خدمات کی بدولت ہند وبیرونِ ہند بے انتہا مقبول ومعروف ہے۔ آج بفضلِ الٰہی دنیا کے مختلف ممالک مثلاً سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، قطر، کویت، یمن، مصر، ایران، انگلینڈ، امریکہ، ساؤتھ افریقہ، مالدیپ، سری لنکا، ملیشیا اور سنگاپور وغیرہ کے لاتعداد مریض رحیمی شفاخانہ بنگلور ودہلی سے اپنا علاج کرانا مناسب اور بہتر تصور کرتے ہیں۔
رحیمی شفاخانہ کی خصوصیات

∎ رحیمی شفاخانہ کا مقصد مناسب اور کم قیمت پر بہتر اور عمدہ علاج کرنا ہے، نیز آپریشن، بائی پاس سرجری، ڈیالیسس وغیرہ سے مریضوں کو بچا کرآسان علاج کرنا ہے۔∎ رحیمی شفاخانہ میں ہر آنے والوں کے ساتھ حسن سلوک اور گفتگو میں شائستگی وہمدری کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، نیز علاج ومعالجہ کو خاص خدمت خلق تصور کیا جاتا ہے۔
∎ رحیمی شفاخانہ ہمدردی اور لگاؤ کے ساتھ مریض کی جان کو سب سے زیادہ قیمتی تصور کرتا ہے، اسی لئے داخلی دروازہ پر آپ کو Value of Life اور زندگی انمول ہے لکھا ہوا ملے گا۔
∎ رحیمی شفاخانہ میں جہاں آپ کو متقدمین اطباء کا دستورِ مطب واضح طور پر نظر آئے گا وہیں متأخرین اطباء کے جدید رجحانات بھی آپ کو دیکھنے میں ملیں گے۔
∎ رحیمی شفاخانہ میں نبض وقارہ وبراز کے علاوہ آج کے زمانہ کے تمام جدید رجحانات مثلاً ایکسرے، اسکیننگ، خون کی جانچ وغیرہ سے بھی خاطر خواہ فائدہ اٹھا کر معتبر تشخیص کی جاتی ہے۔
∎ رحیمی شفاخانہ بنیادی طبی اصولوں یعنی علاج بالدواء، علاج بالغذاء، علاج بالتدبیر کو مدنظر رکھتے ہوئے پوری لگن اور دلچسپی کے ساتھ اپنے مریضوں کا علاج کرتا ہے۔
∎ رحیمی شفاخانہ کا تشخیص وعلاج کے علاوہ امتیازی شعبہ فن دوا سازی ہے۔ جہاں ادویہ سازی کی نگرانی ابتداء تا انتہاء بذاتِ خود حکیم صاحب فرماتے ہیں۔
∎ رحیمی شفاخانہ میں دی جانی والی ادویات چاہے وہ مفردات ہوں یا ومرکبات ان کی تیاری میں معیار اور کوالیٹی کو خصوصی طور پر مدنظر رکھا جاتا ہے۔
∎ رحیمی شفاخانہ آزمودہ مجرب اور خاندانی نسخوں کو تیار کرنے میں صاف ستھری خالص قدرتی جڑی بوٹیوں کا استعمال کرتا ہے۔ غیر صحت بخش اور غیر فطری اشیاء سے قطعی طور پر پرہیز کیا جاتا ہے۔
∎ نسخہ میں درج شدہ جڑی بوٹیوں کا ہی استعمال کیا جاتا ہے، ادویات کے بنانے میں کسی چیز کا بدل یا کم قیمت اور ادنیٰ کوالیٹی کی اشیاء سے خصوصی طور پر اجتناب کیا جاتا ہے۔
∎ رحیمی شفاخانہ میں ادویات کی پیکنگ کے لئے معیاری اور خوبصورت بوتلوں، ڈبوں اور مرتبانوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ جنہیں رحیمی شفاخانہ خصوصی آڈر پر تیار کراتا ہے۔
∎ ادویات کی پیکنگ میں ڈبوں پر رحیمی شفاخانہ کا مونوگرام، دیدہ زیب اسٹیکر اور عمدہ ومعیاری تھیلوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔ تاکہ نمی گرد وغبار اور پانی سے ادویات محفوظ رہ سکیں۔
∎ رحیمی شفاخانہ اپنے مریضوں کی تشخیص انتہائی تجربہ کار اطباء، مکمل تعلیم یافتہ اور رجسٹرڈ حکماء کے ذریعہ قانونی دائرۂ کار میں رہتے ہوئے انجام دیتا ہے۔
∎ فن دوا سازی اور علاج ومعالجہ میں حکومتِ ہند کے قوانین اور اصولوں کے تحت تمام امور انجام دئیے جاتے ہیں۔ نیز جن ادویات کو حکومت ہند نے ممنوع قرار دیا ہوا ہے ان کا استعمال ہرگز نہیں کیا جاتا۔
∎ علاج کے لئے نبض اور رپورٹس وغیرہ کے علاوہ مریض سے پورے اطمینان وسکون کے ساتھ اس کا حال بھی دریافت کیا جاتا ہے، تاکہ مریض کی پوری طرح تسلی وتشفی ہوسکے۔
∎ مریضوں کا معائنہ بڑی دلچسپی اور پوری لگن کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ مریض کے ساتھ نرم گفتگو، ہمدردی اور حسنِ سلوک رحیمی شفاخانہ کا خصوصی امتیاز ہے۔
∎ مریضوں کا معائنہ باقاعدہ تحریری ہوتا ہے، پہلی مرتبہ آنے والے مریضوں کا تشخیصی کارڈ بنایا جاتا ہے جس پر نام، پتہ، تاریخ اور فائل نمبر درج کیا جاتا ہے۔
∎ حکیم صاحب کی تشخیص اور ادویات کی پوری تفصیل متعینہ صفحہ پر رجسٹر میں درج کی جاتی ہے، نیز مریضوں کو ادویات پر طریقۂ استعمال لکھ کر دینے کے ساتھ سمجھایا بھی جاتا ہے۔
∎ رحیمی شفاخانہ اپنے مریضوں پر خصوصی توجہ رکھتا ہے، جس کے لئے دورانِ علاج کسی بھی قسم کی تکلیف ہونے پر باقاعدہ فون کے ذریعہ رابطہ کیا جاسکتا ہے اور حکیم صاحب سے گفتگو کی جاسکتی ہے۔
∎ دور رہنے والے اور دہلی وبنگلور نہ آسکنے والے مریضوں کے لئے ای میل، واٹس اپ، فون کے ذریعہ تشخیص نیز ادویات کی فراہمی کے لئے کورئیر اور ڈاک کی سہولیات بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
∎ رحیمی شفاخانہ فن طب سے دلچسپی رکھنے والوں، مریضوں اور عوام الناس کی معلومات کے لئے باقاعدہ ایک طبی رسالہ ماہنامہ نقوشِ عالم بنگلور ایک عرصہ سے شائع کرتا آرہا ہے، نیز واٹس اپ گروپ، فیس بک وغیرہ کے ذریعہ حضرت حکیم صاحب کے طبی مضامین، گھریلو ٹوٹکے، صحت مند ویڈیوز، مفید طبی معلومات کی طرف بھی رہنمائی کرتا ہے۔
∎ رحیمی شفاخانہ آپ کے حق میں نیک آرز رکھتا ہے اور دعاگو ہے کہ رب العالمین آپ کو صحت وتندرستی، شفائے کاملہ وعاجلہ عطا فرمائے اور زندگی کی تمام تر خوشیوں سے آپ کو بہرہ مند فرمائے، آمین!
ماہر نباض طبیب زماں حضرت مولانا ڈاکٹر حکیم محمد ادریس حبان رحیمی ایم ڈی ایک عبقری شخصیت



ماہر نباض طبیب زماں حضرت مولانا ڈاکٹر حکیم محمد ادریس حبان رحیمی ایم ڈی ایک ایسی عبقری شخصیت کا نام ہے جو شمال تا جنوب محتاجِ تعارف نہیں، آپ نے جہاں دینی وملی خدمات اور مجاہدانہ کارناموں کے ذریعہ عوام وخواص میں ایک امتیازی مقام حاصل کیا ہے وہیں طبی دنیا میں آپ کی خدمات نہ صرف قابل ستائش ہیں بلکہ قابل تقلید بھی ہیں، ہندوستان میں طبِ یونانی کی خستہ حالی ملک کی تقسیم سے شروع ہوچکی تھی جس میں روز افزوں اضافہ اسلاف کی گراں قدر طبی تحقیقات وتجربات کو ضائع کررہا تھا، ایسے میں ملک کے مختلف گوشوں میں پھیلے ہوئے بہت سے افراد نے طب قدیم کو بچانے اور اس کو پھر بامِ عروج عطا کرنے کی کوشش کی انہیں میں سے ایک نام نامی ماہر نباض طبیب زماں حضرت مولانا ڈاکٹر حکیم محمد ادریس حبان رحیمی ایم ڈی کا بھی ہے۔ آپ نے شمالی ہند کی مردم خیز سرزمین قصبہ چرتھاول (جس کی تین ہزار سال پرانی تاریخ ہے) ضلع مظفرنگر کے ایک علمی خانوادہ میں مورخہ 20؍ اپریل 1958ء کو آنکھیں کھولیں، آپ نے ابتدائی تعلیمی مراحل طے کرنے کے بعد حفظ القرآن اور درسِ نظامی کی تکمیل کی، لیکن ابتداء سے ہی آپ کو فن طب میں خاص دلچسپی تھی، چنانچہ حضرت مولانا حکیم عبد الوہاب انصاری المعروف حکیم نابینا دہلوی کے شاگردِ خاص بحر العلوم حضرت مولانا حکیم عبد الرشید محمود المعروف حکیم ننھوں میاں صاحب نور اللہ مرقدہٗ (نبیرہ حضرت گنگوہی) سے فن طب کی شروعات کی اور ان سے شرفِ تلمیذ حاصل کیا۔آپ نے حصولِ علم طب کے لئے بہت سے مراحل طے کرتے ہوئے جنوبی ہند آکر باقاعدہ پانڈی چری یونیورسٹی سے ایم ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ حکیم ڈاکٹر محمد ادریس حبان رحیمی اپنی نبض شناسی، ادویہ سازی، پیچیدہ سے پیچیدہ امراض کی تشخیص اور ان کا علاج ومعالجہ، مرکبات کے علاوہ مفردات کے ذریعہ آسان وسہل علاج میں مہارت کی بدولت نہ صرف ہندوستان بلکہ بے شمار ممالک میں مقبول ومعروف ہیں۔ آپ نے 1980 عیسوی میں رحیمی شفاخانہ بنگلور کے نام سے باقاعدہ ایک ادارہ قائم فرمایا، جہاں نہ صرف مجرب وآزمودہ، خاندانی اور قدیم نسخوں کے ذریعہ مریضوں کا علاج ومعالجہ کیا جاتا ہے بلکہ ادویہ سازی میں جدید رجحانات کو بھی شامل کرکے قدیم طب یونانی میں وہ گراں قدر اضافہ کیا ہے جو یقیناًلائق تحسین ہے۔ آپ نے اکیسویں صدی کے لوگوں کا مزاج سمجھتے ہوئے شربت کو سرپ، معجونات کو اقراص وحبوب اور دیگر بہت سی میٹھی وترش ادویات کو سفوف وعرقیات اور کیپسول میں تبدیل کرکے مریضوں کے لئے بہت آسانی پیدا کردی ہے، آپ کی مریضوں کے ساتھ ہمدردی وسلوک، نرم روی اور خوش گفتاری، معمولی اور مناسب قیمت کی ادویات، مجرب وآزمودہ نسخوں کے ذریعہ علاج ومعالجہ اور مریض کی تسلی وتشفی ایسی صفات ہیں جنہیں دیکھ کر ہر آنے والا متاثر ہوئے بنا نہیں رہتا۔آپ جہاں رحیمی شفاخانہ دہلی وبنگلور کے بانی، یونیورسل طب یونانی فاؤنڈیشن کے چیرمین، ماہنامہ نقوشِ عالم بنگلور کے بانی وچیف ایڈیٹر ہیں وہیں آپ نے حال ہی میں طب یونانی کا ایک نیا ادارہ آر ایس کے ہربل کے نام سے قائم فرمایا ہے، جس میں ادویہ سازی اور تحقیق وجستجو کے نئے باب کھولے جارہے ہیں، ان سب سے علاحدہ جہاں آپ کی بے شمار مذہبی سیاسی اصلاحی اور سماجی کتب منظر عام پر آئی ہیں وہیں آپ نے اپنے قلم سے طب یونانی کے اپنے چالیس سالہ تجربات کی روشنی میں بیاضِ حبان، کلیدِ شفاء، بحرِ طب سے چند موتی اور صحت مند زندگی کے راز نامی کتابیں تالیف کیں، جو حکماء واطباء یونانی میڈیکل کالجس کے پروفیسر صاحبان اور طلباء عزیز میں بے حد مقبول ہیں، آپ نے عوام الناس کے استفادہ کے لئے ہفتہ واری طبی کالمس کے ذریعہ بے شمار مضامین سے عوام وخواص کو بہرہ ور فرمایا، یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے، بحمد اللہ تعالیٰ اس میں آپ نے مزید پیش رفت کرتے ہوئے عوام الناس کی بیداری اور اطباء کی رہبری کے لئے آسان وسہل اور گراں قدر مواد کو سمیٹے پھلوں سے علاج، ترکاریوں سے علاج، کینسر کا مجرب علاج، شوگر کا کامیاب علاج جیسے تقریباً چالیس سے زائد کتابچے ترتیب دئیے ہیں، آپ خدمتِ خلق کو عبادت تصور کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے اپنے تینوں صاحبزادوں ڈاکٹر حکیم محمد فاروق اعظم حبان قاسمی جنرل سکریٹری یونیورسل طب یونانی فاؤنڈیشن، مولانا حکیم ڈاکٹر محمد عثمان حبان دلدار قاسمی ایڈیٹر ماہنامہ نقوشِ عالم بنگلور اور ماہرِ ادویہ شناس حکیم محمد عدنان حبان نوادر ڈائریکٹر آر ایس کے ہربل کو بھی دیگر ملی امور کے ساتھ خصوصاً طبی خدمات کی طرف راغب کیا ہے، اور ان کو تعلیم بھی طب یونانی کی ضروریات کے پیش نظر دِلائی ہیں، یہی وجہ ہے کہ آپ کے یہ تینوں صاحبزادگان بھی آپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے بہتر طبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
الغرض ماہرِ نباض طبیب زماں حضرت مولانا ڈاکٹر حکیم محمد ادریس حبان رحیمی ایم ڈی نہ صرف ایک عبقری شخصیت کا نام ہے بلکہ آپ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں، اللہ تعالیٰ آپ کی ان ملی خدمات کو شرفِ قبولیت سے نوازے، اس کا بہتر بدلہ عطا فرمائے اور آپ کی عمر میں آپ کے دستِ شفا میں اضافہ فرمائے، آمین!
طب یونانی
تعریف علم طب
علمِ طب صحت سے متعلق معلومات کو کہا جاتا ہے، اس شعبہ علم کا تعلق سائنس وفن (SCIENCE AND ART) دونوں سے ہے، اس شعبہ علم میں تندرستی کی نگہداری وبقا اور بصورتِ مرض وضرر تشخیص اور معمول کی جانب جسم کی بحالی سے متعلق بحث کی جاتی ہے۔
علم طب کی تقسیم
بنیادی طور پر طب کو دو بڑی شاخوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک اساسی طب (BASIC MEDICINE) جو تشریح، حیاتی کیمیاء اور فعلیات جیسے بنیادی مضامین پر مشتمل ہے، ان مضامین کا مرض یا مریض پر براہِ راست عملی استعمال نہیں ہوتا، بلکہ یہ اس عملی استعمال کے لئے ایک بنیاد فراہم کرتے ہیں۔ دوسرا سریری طب (CLINICAL MEDICINE) جس کو نفاذی طب بھی کہہ سکتے ہیں، اس میں طبی معلومات کو علاج ومعالجہ کے لئے نافذ کیا جاتا ہے، اس میں شامل اہم مضامین میں طبی علاج، جراحی اور علم الادویہ ہیں، جو اساسی طب کی بنیاد پر کھڑے ہوکر براہِ راست علاج ومعالجہ سے تعلق رکھتے ہیں۔
طبِ یونانی
طبِ یونانی قدیم طریقہ طب ہے، جو ملک یونان سے شروع ہوا، عرب علاقے میں مقبول ہوا اور اب برصغیر میں مقبول ومشہور ہے۔ طبِ یونانی میں یونانی کا لفظ دراصل LNIAN کی عربی زدہ صورت ہے جس کے معنی GREEK یا یونان کے ہیں۔ اس کو حکمت بھی کہا جاتا ہے اور یونانی طب بھی، اور اب ہند وپاک میں طب یونانی کے علاوہ دیسی طریقۂ علاج کے نام سے معروف ہے۔
طب کی تاریخ
طب یونانی کی تاریخ کا تعاقب کیا جائے تو یہ قبل مسیح 460 تا 377 کے زمانے تک لے جاتی ہے، جب ایک فلسفی بقراط (HIPPOCRATES) نامی جنہیں بابائے طب بھی کہا جاتا ہے نے ایسے مقالات ودانش نامے تحریر کئے کہ جنہوں نے طب کی بنیاد بننے والے اصولوں کو ایک مضبوط ومرتکز مقام دیا۔ بقراط کے بابائے طب ہونے کا حتمی فیصلہ مشکل ہے کیوں کہ یہ مان لینا منطق کے خلاف ہے کہ اچانک ایک فرد نے اٹھ کر تمام علم کی بنیاد رکھ دی ہو اور اس کا کوئی استاد ہی نہ ہو۔ شواہد رہنمائی کرتے ہیں اور تاریخ عالم تائید کہ بقراط نے مصر اور بین النہرین کی قدیم ترین تہذیبات اور وہاں پیدا ہونے والے طبی خیالات سے بھی استفادہ کیا۔ بین النہرین (MESOPOTAMIA) میں پروان چڑھنے والی تہذیب دنیا کی چند قدیم ترین (بعض اندازوں کے مطابق) تہذیبوں میں سے ہے۔ بقراط کے بارے میں یہ کہنا درست ہوگا کہ انہوں نے پہلے سے موجود علم میں بے پناہ اضافہ، نئے خیالات وتصورات شامل کئے اور اصلاحات کرکے اس کو اس مقام تک پہنچایا کہ جہاں سے آنے والے زمانوں میں تحقیق اور ترقی کی بنیادیں فراہم ہوئیں۔ ان کے بعد جالینوس (GARLENUS) نے قدیم یونانی نظریات کو ایک شفاف شکل دی اور اس کو عملی طور پر سمجھنے کی کوشش کیں، مثلاً انہوں نے جانوروں پر تجربات کئے اور گردوں، اعصاب اور خون کی دل میں گردش کے بارے میں اپنے نظریات پیش کئے اور اپنے بعد آنے والے طبیبوں کے واسطے ایک واضح راشتہ بنایا۔
عرب اطباء کی طبی خدمات
پھر جب محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو اپنا کر عربوں نے علم وفن کے میدان میں قدم رکھا تو انہوں نے نہ صرف طب یونانی یا طب قدیم کو اپنایا بلکہ اس میں تحقیقات وتجربات اور اپنی سمجھ وبوجھ کے ذریعہ اس قدر اضافہ کیا کہ مسلم سلاطین کا دور طب وسائنس کا سنہریٰ دور کہلانے لگا۔ سمرقند، اصفہان، دمشق، غرناطہ میں وہ نئے علمی ادارے قائم ہوئے جو آج کی یونیورسٹیوں کے قیام کا سبب بنے ہیں، ان میں دور دور کے طلباء طب کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے آنے لگے، ابتداء میں درسی کتب بالکلیہ وہی کتابیں تھیں جو یونانی زبان سے عربی میں ترجمہ کی گئیں، پھر ان مسلم اطباء اور ماہرین علم نے اپنے مشرقی خطوط پر دوبارہ بقراطی بن کر علم طب کی وہ بنیاد رکھی اور نئی نئی وہ کتابیں تصنیف کیں جس سے نہ صرف علم طب ضائع ہونے سے بچا بلکہ اس کی تدوین وترقی بامِ عروج کو پہنچ گئی۔ آٹھویں صدی سے بارہویں صدی تک پوری دنیا میں عربوں کا علمی دبدبہ قائم رہا۔ انہوں نے تشخیص، عمل جراحی، فصد، حجامت، تعلیق، نیز ادویات کے خواص واستعمال وغیرہ میں بے پناہ اضافہ کیا۔
چند قدیم اطباء وحکماء
دورانِ خون کی دریافت کا سہرا ایک عرب طبیب ابن نفیس کے سر ہے جس کے چھ سو سال بعد ولیم ہاروے نے اسے پیش کیا۔ چیچک کا ٹیکہ اور امراض میں تعفن کا تصور رازی نے دیا۔ ہسپتال کی تعمیر صحت مند جگہ اور ادویات پر ان کا نام اور ایکسپائر ڈیٹ کا سہرا بھی رازی کے ہی سر جاتا ہے۔ الغرض بے شمار طبیبوں جن میں علی ابن ربان الطبری، الحمیاری، الاصمعی، الجاحظ، احمد بن وحشیہ، ابو القاسم الزہراوی، یحییٰ بن بطریق، حارث بن کلدۃ، ثقفی، ابو حفصہ یزید، بختیشوع، ابن ابی رمشۃ التمیمی، رفیۃ الاسلمیہ، ابن آثال، ابن الرحبی، جعفر صادق، ابراہیم الفزاری، ابن الحثیب، جلال الدین السیوطی، علام ابن القیم، جبرئیل ابن البختیشوع، جابر ابن حیان، حنین بن اسحاق، یحییٰ ابن سرافیون، الکندی، ابن فرناس، ابن ماسویہ، شاپور بن سہل گندیشا پوری، علی ابن سہل بان طبری، اسحاق بن علی الرباوی، یوحنا ابن البختیشوع، قسطا بن لوقا البعلبکی، ابو الاعلیٰ شیرازی، ابو الحسن الطبری، حسین بن ابراہیم الطبری النطبلی، ابو منصور حسن بن نوح قمری، ابو زید احمد بن سہل بلخی، اسحاق اسرائیلی بن سلمان (یہودی)، علی بن عباس المجوسی، ابو سہل عیسیٰ بن یحییٰ المسیعی، موافق، محمد ابن ذکریا الرازی، ابن جلجل، الزہراوی، ابن الجزار، الکسکری، ابن ابی الاشعث، ابن البطریق، ابراہیم بن بکس، ابو عبید جزجانی، ابن الہیثم، علی ابن رضوان، شیخ الرئیس بو علی سینا، افراہیم ابن الزفران (یہودی)، ابن الوافد، عبد اللہ بن البختیشوع، ابن بطلان، ابن الکتانی، ابن الجزلہ، ماسویہ الماردنی، یوسف العلاقی، محمد الازدی (ثعبی) ابن ابی صادق، علی ابن عیسیٰ الکحل، ابن ابی البیان، احمد ابن فرخ، ابن ہبل، زین الدین گورجانی، موسیٰ بن میمون، سرافیون، ابن زہر، یعقوب ابن اسحاق اسرائیلی، ابو جعفر ابن ہارون، ابن رشد، ابن طفیل، اسلم الغافتی، ابن ابی الحکم، ابو البرکات البغدادی، السموال بن یحییٰ المغربی، ہبۃ اللہ بن صاعد ابن التلمیذ، ہبۃ اللہ بن جمیع، ابن التلمیذ، سعد الدولۃ بن ہبۃ اللہ، شمص الدین شہر زوری، رشید الدین صوری، امین الدین رشید، ابراہیم بن موسیٰ بن میمون (یہودی)، داؤد ابو الفادی (یہودی)، الدخوار، ابن ابی اصیبعہ، جوزف بن جدا (یہودی)، عبد اللطیف البغدادی، ابن النفیس، زکریا القزوینی، نجیب الدین سمرقندی، قطب الدین شیرازی، ابن القف الکرکی، محد ابن محمد اصلی، النقوری، الاقسرائی، زین العطار، منصور ابن الیاس، جغمینی، مسعود بن محمد سجزی، نجم الدین محمد ابن الیاس الشیرازی، نخشبی، سدید الدین الکزرونی، یوسف ابن اسماعیل القطبی، ابن الخطیب، رشید الدین ہمدانی، ابو سید العفیف، ابو نصر الفارابی، محمد علی استر آبادی، حسینی اصفہانی، برہان الدین کرمانی، شرف الدین صابونجی اوغلی، محمد ابن یوسف الہروی، نور بخشی، شیخ محمد ابن ابی طالب، حکیم الگیلانی، عبد القاسم ابن محمد الغسانی، تقی الدین محمد ابن معروف، داؤد الانطاکی اور ابو القاسم عمار الموصلی وغیرہم کے نام قابل ذکر ہیں انہوں نے وہ طبی کارہائے نمایاں انجام دئیے جنہیں دنیا کبھی بھلا نہیں سکتی۔
طبی تالیفات
اس دوران انہوں نے مختلف تجربات اور حد درجہ مشقت ومحنت سے مختلف طبی موضوعات پر بکثرت کتابیں لکھیں جن میں مشہور کتابیں ابن سینا کی القانون، رازی کی الحاوی، مجوسی کی کامل الصناعۃ، زہراوی کی التصریف، علی ابن ربان الطبری کی فردوس الحکمت، اور دیگر کناس فی الطب، القانون فی الطب، علم استخواں فی العرب، کتاب الشفاء، کتاب العشر مقالات فی العین، رسالۃ فی قدر منفعہ صناعۃ الطب، کتاب التصریف، ذخیرہ خوارزم شاہی، ادب الطبیب، الطب النبوی للسیوطی، الطب النبوی، الکلیات فی الطب، الکتاب المنتخب فی علاج العین، المنصوری، کتاب العمل بالحدید، مقالۃ فی الحصنی فی الکلی والمثانۃ وغیرہ جیسی بہت سی لاجواب اور بے مثال تصانیف عمل میں آئیں جن کا بعد میں مغربی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا اور سترہویں صدی عیسوی تک یورپ میں یہ کتابیں داخل نصاب رہیں، اور آج بھی جو کتابیں تصنیف کی جارہی ہیں ان میں ان قدیم طبی کتابوں کا بڑا دخل ہے۔
ہندوستان میں طب یونانی
طب یونانی عرب وایران کے بعد ہندوستان پہنچا، بارہویں صدی عیسوی میں جب باقاعدہ مسلم سلطنتیں وجود میں آئیں تو طب یونانی کو ہندوستان میں استحکام ملا، جس میں حکمرانوں کے ساتھ ساتھ عوام کا بھی کافی تعاون رہا، آہستہ آہستہ یونان، عرب اور عجم کے بعد بھارت طب یونانی کا نہ صرف وارث بلکہ مرکز بن گیا، اس کا تسلسل عہد غزنی سے شروع ہوکر عہد غوری، عہد غلامان، خلجی، لودھی، تغلق اور عہد مغلیہ تک جاری رہا، جنوبی ہندو دکن میں بہمنی سلطنت، قطب شاہی، عادل شاہی، نظام شاہی اور آصف جاہی سلطنتوں نے بھی طب کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا، برطانوی عہد میں طب یونانی کی ترقی متاثر ہوئی لیکن چونکہ عوام کے دلوں میں طب یونانی گھر کرچکی تھی اس لئے بہت سے طبی خانوادوں نے اسے فعال ومتحرک بنائے رکھا اور طب کو زوال سے بچالیا۔ برٹش گورنمنٹ کے زوال کے دنوں میں مشہور مجاہد آزادی ومسیحائے قوم حکیم اجمل خان صاحب اور حکیم عبد الحمید صاحب کے مجاہدانہ کارناموں نے طب یونانی کی حافظت میں اہم کردار ادا کیا، آپ دونوں نے رسرچ اور تحقیق کا آغاز کرکے عصری علوم سے دیسی طبوں کو ہم آہنگ کیا، آزاد بھارت میں دیگر ہندی صورت حاصل یہ ہے کہ پوری دنیا میں بھارت واحد ملک ہے جہاں طب یونانی کو حکومت کی سرپرستی حاصل ہے، طب جدید کی طرح طب یونانی سے وابستہ افراد اب دیگر ذرائع جیسے تکنیکی مشینوں کا استعمال کرکے مفردات ومرکبات کو نئی پیکنگ اور نئے انداز سے متعارف کرارہے ہیں۔
طب یونانی کے بنیادی نظریات اتنے سائنٹفک، اتنے جاندار اور اتنے شاندار ہیں کہ اسے کسی دوسرے طب سے تقابل کی ضرورت ہی نہیں، طب یونانی کا عالمی طب پر بڑا احسان ہے کہ اس کی دوائیں اور نظریات دوسرے نظامہائے طب میں بھی مستعمل ہیں۔ (تحریر مولانا حکیم محمد عثمان حبان دلدار قاسمی)
طب یونانی کے بنیادی نظریات اتنے سائنٹفک، اتنے جاندار اور اتنے شاندار ہیں کہ اسے کسی دوسرے طب سے تقابل کی ضرورت ہی نہیں، طب یونانی کا عالمی طب پر بڑا احسان ہے کہ اس کی دوائیں اور نظریات دوسرے نظامہائے طب میں بھی مستعمل ہیں۔ (تحریر مولانا حکیم محمد عثمان حبان دلدار قاسمی)
